نہ گھاٹ ہے کوئی اپنا نہ گھر ہمارا ہوا
قیام اب کے سر رہگزر ہمارا ہوا
غرض رہی نہ کبھی منزلوں سے کوئی ہمیں
ہمیشہ اپنے ہی اندر سفر ہمارا ہوا
اسی کی روشنی کام آئی عمر بھر اپنے
جو اک ستارہ فقط شام بھر ہمارا ہوا
ہمارے حصے میں دیوار ہی رہی دن رات
کوئی دریچہ ہمارا نہ در ہمارا ہوا
ہمارے خوں سے گزر کر ہی تیغ برق بجھی
ہمارے خس میں اتر کر شرر ہمارا ہوا
زر سخن جو لٹایا ہے راستے میں کہیں
تو دور دشت ہوا میں خطر ہمارا ہوا
رہے ہیں بے ثمر و سایہ ہی سر ہستی
برائے نام یہاں پر شجر ہمارا ہوا
اسی میں الجھے ہوئے ہیں ہمارے پانو ابھی
جو ایک خواب کبھی سر بسر ہمارا ہوا
کسی سند کی ضرورت نہیں پڑی ہے ظفرؔ
ہمارا عیب ہی آخر ہنر ہمارا ہوا
غزل
نہ گھاٹ ہے کوئی اپنا نہ گھر ہمارا ہوا
ظفر اقبال