نہ دل بھرا ہے نہ اب نم رہا ہے آنکھوں میں
کبھو جو روئے تھے خوں جم رہا ہے آنکھوں میں
میں مر چکا ہوں پہ تیرے ہی دیکھنے کے لیے
حباب وار تنک دم رہا ہے آنکھوں میں
موافقت کی بہت شہریوں سے میں لیکن
وہی غزال ابھی رم رہا ہے آنکھوں میں
وہ محو ہوں کہ مثال حباب آئینہ
جگر سے اشک نکل تھم رہا ہے آنکھوں میں
بسان اشک ہے قائمؔ تو جب سے آوارہ
وقار تب سے ترا کم رہا ہے آنکھوں میں
غزل
نہ دل بھرا ہے نہ اب نم رہا ہے آنکھوں میں
قائم چاندپوری