نہ چھین لے کہیں تنہائی ڈر سا رہتا ہے
مرے مکاں میں وہ دیوار و در سا رہتا ہے
کبھی کبھی تو ابھرتی ہے چیخ سی کوئی
کہیں کہیں مرے اندر کھنڈر سا رہتا ہے
وہ آسماں ہو کہ پرچھائیں ہو کہ تیرا خیال
کوئی تو ہے جو مرا ہم سفر سا رہتا ہے
میں جوڑ جوڑ کے جس کو زمانہ کرتا ہوں
وہ مجھ میں ٹوٹا ہوا لمحہ بھر سا رہتا ہے
ذرا سا نکلے تو یہ شہر الٹ پلٹ جائے
وہ اپنے گھر میں بہت بے ضرر سا رہتا ہے
بلا رہا تھا وہ دریا کے پار سے اک دن
جبھی سے پاؤں میں میرے بھنور سا رہتا ہے
نہ جانے کیسی گرانی اٹھائے پھرتا ہوں
نہ جانے کیا مرے کاندھے پہ سر سا رہتا ہے
چلو سلیمؔ ذرا کچھ علاج جاں کر لیں
یہیں کہیں پہ کوئی چارہ گر سا رہتا ہے

غزل
نہ چھین لے کہیں تنہائی ڈر سا رہتا ہے
سالم سلیم