نہ بیم غم ہے نے شادی کی ہم امید کرتے ہیں
قلندر ہیں جو پیش آ جائے سب کچھ دید کرتے ہیں
کہاں کا غرۂ شوال کیسا عشرہ ذی حجہ
ہمیں ہاتھ آئے مے جس دن ہم اس دن عید کرتے ہیں
مزاج خس ہے اہل عشق کا جلنے کے عالم میں
جلاتا ہے جو ان کو اس کی یہ تائید کرتے ہیں
ارادہ تو نہ تھا اپنا بھی جانے کا ترے گھر سے
پہ کیا کیجے کہ بخت واژگوں تاکید کرتے ہیں
یہ کاسہ سر تلے رکھے جو مے خانوں میں سوتے ہیں
جسے چاہیں اسے اک جام میں جمشید کرتے ہیں
جنہیں کچھ سلسلے میں عشق کے تحقیق حاصل ہے
وہ کب مجنوں سے ہر گمراہ کی تقلید کرتے ہیں
نہ جانے کہئے کس قالب میں قائمؔ درد دل اس سے
نہیں بنتی زباں سے دل میں جو تمہید کرتے ہیں
غزل
نہ بیم غم ہے نے شادی کی ہم امید کرتے ہیں
قائم چاندپوری