نہ بستیوں کو عزیز رکھیں نہ ہم بیاباں سے لو لگائیں
ملے جو آوارگی کی فرصت تو ساری دنیا میں خاک اڑائیں
ہو ایک گلشن خزاں رسیدہ تو کام آئے لہو ہمارا
تمام عالم میں تیرگی ہے کہاں کہاں مشعلیں جلائیں
اگرچہ یہ دل فریب رستہ بھی خار زاروں کی انجمن ہے
مگر مرا جی یہ چاہتا ہے کہ آبلے خود ہی پھوٹ جائیں
جہاں کی رنگینیوں کی ہم راز آنکھ پتھر بنی ہوئی ہے
یہ حال اب ہو گیا ہے دل کا نہ رو سکیں ہم نہ مسکرائیں
یہ دشت بے رہروؤں کی بستی یہ شہر زندانیوں کا مسکن
اگرچہ خلوت نشیں نہیں ہم مگر کہاں انجمن سجائیں
شگفتہ کلیوں کی دل کی دھڑکن اداس لمحوں میں سو گئی ہے
سکوت وہ چھا گیا کہ ہر سو بہار کرتی ہے سائیں سائیں
اگرچہ شہزادؔ وہ نگاہیں بھی ایک مدت سے منتظر ہیں
مگر جو خود سے چھپا رہے ہیں وہ زخم انہیں کس طرح دکھائیں
غزل
نہ بستیوں کو عزیز رکھیں نہ ہم بیاباں سے لو لگائیں
شہزاد احمد