نہ ابر سے ترا سایہ نہ تو نکلتا ہے
غبار آئینۂ آب جو نکلتا ہے
لہو کا رنگ جھلکتا ہے آنسوؤں میں کہیں
نہ خاک دل سے شرار نمو نکلتا ہے
اس انتشار میں کوئی پتا نہیں چلتا
جو گرد بیٹھے تو اک دشت ہو نکلتا ہے
چمک اٹھی ہیں کھنڈر کی شکستہ دیواریں
کدھر سے قافلۂ رنگ و بو نکلتا ہے
نہ جانے کیا ہے کہ جب بھی میں اس کو دیکھتا ہوں
تو کوئی اور مرے رو بہ رو نکلتا ہے
لیے دیئے ہوئے رکھتا ہے خود کو وہ لیکن
جہاں بھی غور سے دیکھو رفو نکلتا ہے
جڑا ہے ذات سے اس کی ہر ایک شعر اس کا
جو پتا شاخ سے توڑو لہو نکلتا ہے
نہ دھند چھٹتی ہے آنکھوں کے سامنے سے کبھی
نہ دل سے حوصلۂ جستجو نکلتا ہے
نہ چاند ابھرتا ہے دیوار شب سے زیبؔ کہیں
نہ سرو غم سے قد آرزو نکلتا ہے
غزل
نہ ابر سے ترا سایہ نہ تو نکلتا ہے
زیب غوری