EN हिंदी
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی | شیح شیری
na aate hamein isMein takrar kya thi

غزل

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی

علامہ اقبال

;

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی

تمہارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی

بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا
تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی

تأمل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی

کھنچے خود بخود جانب طور موسیٰ
کشش تیری اے شوق دیدار کیا تھی

کہیں ذکر رہتا ہے اقبالؔ تیرا
فسوں تھا کوئی تیری گفتار کیا تھی