نہ آسماں کی کہانی نہ واں کا قصہ لکھ
اٹھا دوات و قلم آدمی کا چہرہ لکھ
ہزار شور سمیٹے ہوئے ہے میرا وجود
مرے وجود کے صحرا کو چشم دریا لکھ
بنائے موسم غم ہائے ذات ہے دنیا
اسے تو رشک ارم لکھ کہ شاخ طوبیٰ لکھ
وہ نور پھیلا وہ پھوٹی کوئی کرن تازہ
تمام عمر اندھیرا ہی تھا نہ ایسا لکھ
جو موت پی گیا اک جام انگبیں کی طرح
اسے تو موت کی منزل کا اک مسیحا لکھ
وہ اجنبی تو ذرا اجنبی نہیں لگتا
اسے تو غیر نہ کہہ کوئی ہے وہ اپنا لکھ
بچھڑ گیا ہے تو کیا ساتھ بھی تو تھا برسوں
ظہیرؔ روح و بدن کا اسے تو رشتہ لکھ
غزل
نہ آسماں کی کہانی نہ واں کا قصہ لکھ
علی ظہیر لکھنوی