مضطرب ہیں سبھی تقدیر بدلنے کے لیے
کوئی آمادہ ہو شعلوں پہ بھی چلنے کے لیے
آج کے دور میں جینا کوئی آسان نہیں
وقت ملتا ہے کہاں گر کے سنبھلنے کے لیے
زندگی ہم کو قضا سے تو ڈراتی کیوں ہے
ہم تو ہر وقت ہی تیار ہیں چلنے کے لیے
راز کیوں سارے زمانے پہ عیاں کرتے ہو
آنسوؤ ضد نہ کرو گھر سے نکلنے کے لیے
اب کے روٹھے تو صنم تم کو منائیں گے نہیں
ہم بھی تیار ہیں اب خود کو بدلنے کے لیے

غزل
مضطرب ہیں سبھی تقدیر بدلنے کے لیے
شگفتہ یاسمین