مطمئن بیٹھا ہوں خود کو جان کر
اور کیا ملتا خدا کو مان کر
میرے دشمن کی شرافت دیکھیے
دار کرتا ہے مجھے پہچان کر
ذہن و دل تفریق کے قائل نہیں
کیا کروں اپنا پرایا جان کر
دوستو روداد منزل پھر کبھی
راستہ چپ تھا مجھے پہچان کر
زندگی سے اب بھی سمجھوتا نہیں
جی لیے تیری ضرورت جان کر
اپنے اندر راستے ملنے لگے
رک گیا تھا خود کو منزل جان کر
شعر تو انجمؔ عطائے غیب ہے
فائدہ کیا لفظ و معنی چھان کر
غزل
مطمئن بیٹھا ہوں خود کو جان کر
انجم فوقی بدایونی