مسترد ہو گیا جب تیرا قبولا ہوا میں
یاد کیا آؤں گا اس طرح سے بھولا ہوا میں
بات مجھ میں بھی کچھ اس طرح کی ہوگی جو یہاں
کبھی واپس ہی نہ ہوتا تھا وصولا ہوا میں
خاک تھی اور ہوا تھی مرے اندر باہر
دشت اک سامنے تھا اور بگولا ہوا میں
نہیں مرنے میں بھی درکار تعاون مجھ کو
چھت سے اپنی ہی نظر آؤں گا جھولا ہوا میں
وقت وہ تھا کہ خد و خال نمایاں تھے مرے
اب یہ حالت ہے کہ بس اک ہیولیٰ ہوا میں
یہ بھی سچ ہے کہ عمل مجھ پہ کسی نے نہ کیا
ورنہ کہنے کو تو مشہور مقولہ ہوا میں
اک نحوست ہے مرے موسموں پر چھائی ہوئی
ہے یہی وجہ کہ پھلتا نہیں پھولا ہوا میں
پھر کسی سے بھی گرہ مجھ پہ لگائی نہ گئی
کوئی بے ڈھب ہی بہت مصرع اولیٰ ہوا میں
موت کے ساتھ ہوئی ہے مری شادی سو ظفرؔ
عمر کے آخری لمحات میں دولہا ہوا میں
غزل
مسترد ہو گیا جب تیرا قبولا ہوا میں
ظفر اقبال