مستقل رونے سے دل کی بے کلی بڑھ جائے گی
بارشیں ہوتی رہیں تو یہ ندی بڑھ جائے گی
عشق کی راہوں میں حائل ہو رہی ہے آگہی
اب جنوں بڑھ جائے گا دیوانگی بڑھ جائے گی
ہر گھڑی تیرا تصور ہر نفس تیرا خیال
اس طرح تو اور بھی تیری کمی بڑھ جائے گی
ہو سکے تو اس حصار ذات سے باہر نکل
حبس میں رہنے سے وحشت اور بھی بڑھ جائے گی
اس نے سورج کے مقابل رکھ دیئے اپنے چراغ
وہ یہ سمجھا اس طرح کچھ روشنی بڑھ جائے گی
عشق کے تنہا سفر میں کوئی سایہ ڈھونڈ لے
دھوپ میں چلتا رہا تو تشنگی بڑھ جائے گی
تو ہمیشہ مانگتا رہتا ہے کیوں غم سے نجات
غم نہیں ہوں گے تو کیا تیری خوشی بڑھ جائے گی
ہو سکے تو ہم پہ ظاہر کر دے اپنے دل کا حال
سوچتے رہنے سے تو سنجیدگی بڑھ جائے گی
اپنی تنہائی میں کس سے گفتگو کرتا ہے تو
ان صداؤں سے تو شب کی خامشی بڑھ جائے گی
کیا پتہ تھا رات بھر یوں جاگنا پڑ جائے گا
اک دیا بجھتے ہی اتنی تیرگی بڑھ جائے گی
غزل
مستقل رونے سے دل کی بے کلی بڑھ جائے گی
بھارت بھوشن پنت