مستقل محرومیوں پر بھی تو دل مانا نہیں
لاکھ سمجھایا کہ اس محفل میں اب جانا نہیں
خود فریبی ہی سہی کیا کیجئے دل کا علاج
تو نظر پھیرے تو ہم سمجھیں کہ پہچانا نہیں
ایک دنیا منتظر ہے اور تیری بزم میں
اس طرح بیٹھے ہیں ہم جیسے کہیں جانا نہیں
جی میں جو آتی ہے کر گزرو کہیں ایسا نہ ہو
کل پشیماں ہوں کہ کیوں دل کا کہا مانا نہیں
زندگی پر اس سے بڑھ کر طنز کیا ہوگا فرازؔ
اس کا یہ کہنا کہ تو شاعر ہے دیوانا نہیں
غزل
مستقل محرومیوں پر بھی تو دل مانا نہیں
احمد فراز