EN हिंदी
مستقل اب بجھا بجھا سا ہے | شیح شیری
mustaqil ab bujha bujha sa hai

غزل

مستقل اب بجھا بجھا سا ہے

ایس اے مہدی

;

مستقل اب بجھا بجھا سا ہے
آخر اس دل کو یہ ہوا کیا ہے

تم کو چاہا بڑا قصور کیا
تم ہی بتلا دو کہ اب سزا کیا ہے

مانگ لوں ان کا دل اگر وہ کہیں
قتل کا تیرے خوں بہا کیا ہے

کیوں نفس میں کباب کی بو ہے
میرے سینے میں یہ جلا کیا ہے

مہر ہے ثبت قلب واعظ پر
داغ ماتھے پہ بد نما کیا ہے

حضرت دل ہیں کیوں اداس اداس
نا امیدی نے کچھ کہا کیا ہے

کافی اک لفظ ہے حضور خدا
یہ شب و روز التجا کیا ہے

وہی مانگو کہ ہو دعا مقبول
یعنی اللہ چاہتا کیا ہے

دیکھیے یہ کلام مہدیؔ میں
فکر انساں کی انتہا کیا ہے

میں نے آنکھوں سے اشک پونچھے تھے
رنگ دامن پہ لال سا کیا ہے

ذات مہدیؔ کی پھر غنیمت ہے
گر وہ اچھا نہیں برا کیا ہے