مسکرائے گا مگر بات نہیں مانے گا
دیکھ لو کر کے ملاقات نہیں مانے گا
آپ سے مانگے گا ہر شے کی دلیل محکم
یہ فسانے یہ روایات نہیں مانے گا
قول دے دے گا تو جاں دے کے نبھائے گا اسے
چاہے کیسے بھی ہوں حالات نہیں مانے گا
پیش کرنے میں جسے جذبۂ اخلاص نہ ہو
ایسے تحفے کو وہ سوغات نہیں مانے گا
ابر صحرا پہ برستا ہے تو برسے جم کر
چند بوندوں کو وہ برسات نہیں مانے گا
یوں تو اکرام کرے گا وہ سبھی کا لیکن
سب کو منجملۂ سادات نہیں مانے گا
اس سے روداد غم دل میں کہوں کیسے طفیلؔ
جب یقیں ہے کہ وہ بد ذات نہیں مانے گا

غزل
مسکرائے گا مگر بات نہیں مانے گا
طفیل احمد مدنی