EN हिंदी
مشکل یہ آ پڑی ہے کہ گردش میں جام ہے | شیح شیری
mushkil ye aa paDi hai ki gardish mein jam hai

غزل

مشکل یہ آ پڑی ہے کہ گردش میں جام ہے

عبد الحمید عدم

;

مشکل یہ آ پڑی ہے کہ گردش میں جام ہے
اے ہوش ورنہ مجھ کو ترا احترام ہے

فرصت کا وقت ڈھونڈ کے ملنا کبھی اجل
تجھ کو بھی کام ہے ابھی مجھ کو بھی کام ہے

آتی بہت قریب سے خوشبو ہے یار کی
جاری ادھر ادھر ہی کہیں دور جام ہے

کچھ زہر کو ترستے ہیں کچھ مے میں غرق ہیں
ساقی یہ تیری بزم کا کیا انتظام ہے

مے اور حرام؟ حضرت زاہد خدا کا خوف
وہ تو کہا گیا تھا کہ مستی حرام ہے

اے زلف عنبریں ذرا لہرا کے پھیلنا
اک رات اس چمن میں مرا بھی قیام ہے

اے زندگی تو آپ ہی چپکے سے دیکھ لے
جام عدمؔ پہ لکھا ہوا کس کا نام ہے