EN हिंदी
مشکل اس کوچے سے اٹھنا ہو گیا | شیح شیری
mushkil us kuche se uThna ho gaya

غزل

مشکل اس کوچے سے اٹھنا ہو گیا

ریاضؔ خیرآبادی

;

مشکل اس کوچے سے اٹھنا ہو گیا
حشر بھی نقش کف پا ہو گیا

دیکھ واعظ مجھ کو میں کیا ہو گیا
آدمی تھا پی فرشتہ ہو گیا

اور ہی وادی وہ ہے اے اہل طور
قیس جس میں جا کے لیلیٰ ہو گیا

شاخ میں جب تک یہ ہے انگور ہے
شیخ نے توڑا کہ مینا ہو گیا

تم کو سمجھا حور تیرہ گور میں
اے فرشتو مجھ کو دھوکا ہو گیا

منہ جو کعبے میں کھلا وقت اذاں
بند ناقوس کلیسا ہو گیا

مے کدہ واعظ سے اب چھٹتا نہیں
باد پیما بادہ پیما ہو گیا

اے بتو اللہ کو سونپا تمہیں
بت کدہ سنتا ہوں کعبہ ہو گیا

باغ تک جاتے بھی ہیں آتے بھی ہیں
اب قفس تو گھر ہمارا ہو گیا

آئے گا پینے پلانے کا مزا
پارسا اب بادہ پیما ہو گیا

موت آئی آپ کا منہ دیکھ کر
آپ کا بیمار اچھا ہو گیا

ڈوب جائیں تارے وہ طوفاں کہاں
اشک تو آنکھوں کا تارا ہو گیا

رنگ بدلا کیا زمانے نے ریاضؔ
دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہو گیا