مسلسل اشک باری ہو رہی ہے
مری مٹی بہاری ہو رہی ہے
دیے کی ایک لو اور تختۂ شب
عجب صورت نگاری ہو رہی ہے
یہ میرا کچھ نہ ہونا درج کر لو
اگر مردم شماری ہو رہی ہے
میں جگنو اور تو اتنی بڑی رات
ذرا سی چیز بھاری ہو رہی ہے
بہت بھاری ہیں اب مٹی کی پلکیں
بدن پر نیند طاری ہو رہی ہے
یہ باہر شور کیسا ہو رہا ہے
یہ کیسی مارا ماری ہو رہی ہے
ذرا ہاتھوں میں میرے ہاتھ دینا
بڑی بے اختیاری ہو رہی ہے
ہم اپنے آپ سے بچھڑے ہوئے ہیں
تبھی تو اتنی خواری ہو رہی ہے
وہی پھر یک قلم منسوخ ہوں میں
کتاب عشق جاری ہو رہی ہے
کہاں رکھ آئے وہ سادہ لباسی
یہ کیا گوٹا کناری ہو رہی ہے
نہیں ہوتی یہ ہرجائی کسی کی
تو کیوں دنیا ہماری ہو رہی ہے
سناؤ شعر اپنے فرحتؔ احساس
یہ شب کیا خوب قاری ہو رہی ہے
غزل
مسلسل اشک باری ہو رہی ہے
فرحت احساس