مسافروں کے یہ وہم و گماں میں تھا ہی نہیں
کہ راہبر تو کوئی کارواں میں تھا ہی نہیں
سوال یہ ہے کہ پھر آگ لگ گئی کیسے
کوئی دیا تو اندھیرے مکاں میں تھا ہی نہیں
اٹھا لیے گئے ہتھیار پھر تحفظ کو
کہ شہر امن میں کوئی اماں میں تھا ہی نہیں
تو لازمہ اسے آنا تھا اس زمیں پر ہی
کہ آدمی کا گزر آسماں میں تھا ہی نہیں
سنائی میں نے تو مجھ سے خفا ہوئے کیوں لوگ
کسی کا نام مری داستاں میں تھا ہی نہیں
تو کس سبب سے غلط فہمیاں ہوئیں پیدا
بجز ہوا تو کوئی درمیاں میں تھا ہی نہیں
وہ جس سے شہر تصورؔ میں روشنی ہوتی
ستارہ ایسا کوئی آسماں میں تھا ہی نہیں
غزل
مسافروں کے یہ وہم و گماں میں تھا ہی نہیں
یعقوب تصور