مسافروں کا یہاں سے گزر نہیں ہے کیا
تمہارے شہر میں کوئی شجر نہیں ہے کیا
کسی بھی وقت نگاہیں یہ پھیر سکتا ہے
تمہیں زمانے کی کچھ بھی خبر نہیں ہے کیا
جو تیرہ بختی کا کاتب ملا تو پوچھوں گی
مرے نصیب میں کوئی سحر نہیں ہے کیا
نکالتے ہو بہو کو جو گھر سے ننگے سر
تمہارے ذہن میں بیٹی کا گھر نہیں ہے کیا
کھرچ کے دیکھوں گی ہاتھوں کی سب لکیروں کو
وفا نبھانے کا ان میں ہنر نہیں ہے کیا
تم آئنہ سے مخاطب ہو آج کل بلقیسؔ
تمہارے گھر میں کوئی بھی بشر نہیں ہے کیا

غزل
مسافروں کا یہاں سے گزر نہیں ہے کیا
بلقیس خان