EN हिंदी
مسافر خانۂ امکاں میں بستر چھوڑ جاتے تھے | شیح شیری
musafir KHana-e-imkan mein bistar chhoD jate the

غزل

مسافر خانۂ امکاں میں بستر چھوڑ جاتے تھے

نشتر خانقاہی

;

مسافر خانۂ امکاں میں بستر چھوڑ جاتے تھے
وہ ہم تھے جو چراغوں کو منور چھوڑ جاتے تھے

سبھی کو اگلے فرسنگوں کی پیمائش مقدر تھی
مسافر طے شدہ میلوں کے پتھر چھوڑ جاتے تھے

گرجتے گونجتے آتے تھے جو سنسان صحرا میں
وہی بادل عجب ویران منظر چھوڑ جاتے تھے

نہ تھیں معلوم بھوکی نسل کی مجبوریاں ان کو
پھٹی چادر وہ تلواروں کے اوپر چھوڑ جاتے تھے

نہیں کچھ اعتبار اب قفل و درباں کا کبھی ہم بھی
پڑوسی کے بھروسے پر کھلا گھر چھوڑ جاتے تھے

لہو پر اپنے ہی موقوف تھی دھرتی کی زرخیزی
سبھی دہقاں یہاں کھیتوں کو بنجر چھوڑ جاتے تھے

کبھی آندھی کا خدشہ تھا کبھی طوفاں کا اندیشہ
وہ ریگستان لے جاتے تو ساگر چھوڑ جاتے تھے