مرید دیر و حرم کم سے کم یہ کام کریں
حدیث درد محبت کا ذوق عام کریں
یہی منت آرام یہ مقدر ہے
غموں کی دھوپ میں راحت کا اہتمام کریں
ابھی نہ دیں ہمیں الزام بے وفائی کا
خود اپنے وعدوں کا کہئے وہ احترام کریں
جو تشنہ کام ترے میکدے میں ہوں ساقی
مرے لہوں سے وہ لبریز اپنے جام کریں
ابھی نہ جیب نہ دامن نہ آستیں کا پتہ
یقین موسم گل ہو تو انتظام کریں
انہیں کے لب پہ ہے امن و امیں کا افسانہ
وہی جو حضرت انساں کا قتل عام کریں
گماں سے عہد یقیں تک سکوں کی ہو دنیا
خوشی کے ساتھ جو غم کا بھی اہتمام کریں
مذاق اہل گلستاں جو ساتھ دے جائے
قفس نصیبوں کی یادوں کا احترام کریں
یہ دور حشر نہیں ہے تو اور کیا ہے امیںؔ
کسے پکاریں یہاں کس کو ہم کلام کریں
غزل
مرید دیر و حرم کم سے کم یہ کام کریں
امین سلونی