مقید ذات کے اندر نہیں میں
چراغ گنبد بے در نہیں میں
مجھے بھی راستہ دے بحر خلقت
کسی فرعون کا لشکر نہیں میں
تو سستانے کو ٹھہرا ہے یقیناً
تری پرواز کا محور نہیں میں
رہے کیسے مسلسل ایک موسم
کسی تصویر کا منظر نہیں میں
تو جب چاہے مجھے تسخیر کر لے
ترے امکان سے باہر نہیں میں
وہ پھر آیا ہے راحتؔ صلح کرنے
کوئی کہہ دے اسے گھر پر نہیں میں
غزل
مقید ذات کے اندر نہیں میں
راحت سرحدی