EN हिंदी
مقید ذات کے اندر نہیں میں | شیح شیری
muqayyad zat ke andar nahin main

غزل

مقید ذات کے اندر نہیں میں

راحت سرحدی

;

مقید ذات کے اندر نہیں میں
چراغ گنبد بے در نہیں میں

مجھے بھی راستہ دے بحر خلقت
کسی فرعون کا لشکر نہیں میں

تو سستانے کو ٹھہرا ہے یقیناً
تری پرواز کا محور نہیں میں

رہے کیسے مسلسل ایک موسم
کسی تصویر کا منظر نہیں میں

تو جب چاہے مجھے تسخیر کر لے
ترے امکان سے باہر نہیں میں

وہ پھر آیا ہے راحتؔ صلح کرنے
کوئی کہہ دے اسے گھر پر نہیں میں