مقابل اک زمانہ اور صف آرائی میری
زمانے سے بھی کب ہو کر رہی پسپائی میری
قدم حیرت سرائے کے جہاں تسخیر کرتے
ٹھہر جاتی کسی منظر پہ جب بینائی میری
کسی سازش میں لانا مدعا تھا دوستوں کا
سو پہلے کی گئی تھی حوصلہ افزائی میری
تماشا گاہ سے بہتر کہیں خلوت نشینی
سحر آثار ہے میرے لیے تنہائی میری
بہت چاہا بہت روکا پہ سارے بند ٹوٹے
کہ آنکھ اس کو اچانک دیکھ کر بھر آئی میری
مقید ہو کے کب تک کون رہتا ہے کہ مہدیؔ
گلی کوچوں تک آخر آ گئی رسوائی میری
غزل
مقابل اک زمانہ اور صف آرائی میری
شوکت مہدی