منتظر آنکھیں ہیں میری شام سے
شمع روشن ہے تمہارے نام سے
چھین لیتا ہے سکوں شہرت کا شوق
اس لیے ہم رہ گئے گمنام سے
سچ کی خاطر جان جاتی ہے تو جائے
ہم نہیں ڈرتے کسی انجام سے
اپنے من کی بات اب کس سے کہوں
آئنہ ناراض ہے کل شام سے
کیا عجب دنیا ہے یہ دنیا یہاں
لوگ ملتے ہیں مگر بس کام سے
ایسا کچھ ہو جائے دل ٹوٹے نہیں
سوچیے گا آپ بھی آرام سے
مجھ سے پوچھو آنسوؤں کی برکتیں
مطمئن ہوں رنج و غم آلام سے

غزل
منتظر آنکھیں ہیں میری شام سے
گووند گلشن