منکر ہوتے ہیں ہنر والے
نخل جھک جاتے ہیں ثمر والے
ہم نے گھورا تو ہنس کے فرمایا
اچھے آئے بری نظر والے
منہدی مل کر وہ شوخ کہتا ہے
سینک لیں آنکھیں چشم تر والے
ہے سلامت جو سنگ در ان کا
سیکڑوں مجھ سے درد سر والے
قدرؔ کیا اپنے پاس دل کے سوا
اڑیں پر والے پھولیں زر والے
غزل
منکر ہوتے ہیں ہنر والے
قدر بلگرامی