منہ اندھیرے گھر سے نکلے پھر تھے ہنگامے بہت
دن ڈھلا تنہا ہوئے اور رات بھر پگھلے بہت
رنج کے اندھے کنویں میں رات اب کیسے کٹے
دیکھنے کو دن میں دیکھے چاند سے چہرے بہت
پھر بھی ہم اک دوسرے سے بد گماں کیا کیا رہے
جھوٹ ہم نے بھی نہ بولا تم بھی تھے سچے بہت
تھا ارادہ ان کے گھر سے بچ کے ہم نکلیں مگر
ہر قدم پر ان کے گھر کے راستے آئے بہت
ان دنوں رہتے ہیں لوگوں سے ہمیں کیا کیا گلے
اور لگتے بھی ہیں ہم کو لوگ سب اچھے بہت
پیڑ اپنے دشت میں اب ہم لگا کر کیا کریں
دھوپ نے پھیلا دیئے ہیں دور تک سائے بہت
غزل
منہ اندھیرے گھر سے نکلے پھر تھے ہنگامے بہت
احمد ہمدانی