EN हिंदी
ممکن ہی نہ تھی خود سے شناسائی یہاں تک | شیح شیری
mumkin hi na thi KHud se shanasai yahan tak

غزل

ممکن ہی نہ تھی خود سے شناسائی یہاں تک

شارق کیفی

;

ممکن ہی نہ تھی خود سے شناسائی یہاں تک
لے آیا مجھے میرا تماشائی یہاں تک

رستہ ہو اگر یاد تو گھر لوٹ بھی جاؤں
لائی تھی کسی اور کی بینائی یہاں تک

شاید تہہ دریا میں چھپا تھا کہیں صحرا
میری ہی نظر دیکھ نہیں پائی یہاں تک

محفل میں بھی تنہائی نے پیچھا نہیں چھوڑا
گھر میں نہ ملا میں تو چلی آئی یہاں تک

صحرا ہے تو صحرا کی طرح پیش بھی آئے
آیا ہے اسی شوق میں سودائی یہاں تک

اک کھیل تھا اور کھیل میں سوچا بھی نہیں تھا
جڑ جائے گا مجھ سے وہ تماشائی یہاں تک

یہ عمر ہے جو اس کی خطاوار ہے شارقؔ
رہتی ہی نہیں باتوں میں سچائی یہاں تک