ممکن ہے شے وہی ہو مگر ہو بہ ہو نہ ہو
ریگ رواں بھی دیکھ کہیں آب جو نہ ہو
قائم اسی تضاد کے دم سے ہے کائنات
میں آرزو ہوں جس کی مری آرزو نہ ہو
منظر بدل بدل کے بھی دیکھا ہے بارہا
جو زخم اب ہے آنکھ پہ شاید رفو نہ ہو
سہتا رہا ہوں ایک تسلسل سے اس لئے
یہ ٹوٹ پھوٹ ہی مری وجہ نمو نہ ہو
میں خود ہی بجھنے لگتا ہوں جلتے ہوئے چراغ
جس روز تیری لو سے مری گفتگو نہ ہو
دیکھو بدل کے زاویہ اپنی نگاہ کا
جو روبرو نہیں ہے وہی روبرو نہ ہو
میرے وجود سے ہے یہ دنیائے رنگ و بو
لیکن مرا جہان فقط رنگ و بو نہ ہو
مشکل مری حدوں کا تعین ہے آفتابؔ
وہ روشنی بھی کیا ہے کہ جو چار سو نہ ہو
غزل
ممکن ہے شے وہی ہو مگر ہو بہ ہو نہ ہو
آفتاب احمد