مختصر سی وہ ملاقات بہت اچھی تھی
چند لفظوں میں ڈھلی بات بہت اچھی تھی
لمحہ لمحہ کسی امید پہ جب گزرا تھا
دن بہت خوب تھا وہ رات بہت اچھی تھی
بے قراری ہی میں جب دل کو قرار آتا تھا
ہائے وہ شدت جذبات بہت اچھی تھی
حسن کے رنگ تھے ہر پہلو نمایاں جس میں
اپنی تصویر خیالات بہت اچھی تھی
آنکھیں بھر آئی تھیں ملتے یا بچھڑتے ان سے
دونوں وقتوں کی وہ برسات بہت اچھی تھی
چاہنا بھی انہیں اور منہ سے نہ کچھ بھی کہنا
دل کی خاموش مناجات بہت اچھی تھی
لب پہ آ جاتی تو کچھ اور بھی اچھا تھا رشیؔ
آپ کے دل میں جو تھی بات بہت اچھی تھی
غزل
مختصر سی وہ ملاقات بہت اچھی تھی
کیول کرشن رشیؔ