مجرم عشق طلب گار معافی تو نہیں
صرف غم چاہتا ہے غم کی تلافی تو نہیں
سوچ لے یہ بھی ہر امید سے پہلے اے دل
یہ سہارا تری غیرت کے منافی تو نہیں
رونے والے یہ ندامت بھی غنیمت ہے مگر
صرف دو اشک گناہوں کی تلافی تو نہیں
ظرف میکش پہ نظر چاہئے ساقی تجھ کو
ایک دو جام غنیمت سہی کافی تو نہیں
ابھی الزام تغافل نہ دے ان کو اے دل
شام وعدہ سحر وعدہ خلافی تو نہیں
غزل
مجرم عشق طلب گار معافی تو نہیں
مختار ہاشمی