EN हिंदी
مجرم عشق طلب گار معافی تو نہیں | شیح شیری
mujrim-e-ishq talabgar-e-muafi to nahin

غزل

مجرم عشق طلب گار معافی تو نہیں

مختار ہاشمی

;

مجرم عشق طلب گار معافی تو نہیں
صرف غم چاہتا ہے غم کی تلافی تو نہیں

سوچ لے یہ بھی ہر امید سے پہلے اے دل
یہ سہارا تری غیرت کے منافی تو نہیں

رونے والے یہ ندامت بھی غنیمت ہے مگر
صرف دو اشک گناہوں کی تلافی تو نہیں

ظرف میکش پہ نظر چاہئے ساقی تجھ کو
ایک دو جام غنیمت سہی کافی تو نہیں

ابھی الزام تغافل نہ دے ان کو اے دل
شام وعدہ سحر وعدہ خلافی تو نہیں