مجھی میں ڈوب گیا دشمنی نبھاتے ہوئے
خدا بھی ہار گیا مجھ کو آزماتے ہوئے
بھٹک نہ جائے وہ دن رات کے اندھیرے میں
میں بجھ رہا ہوں جسے راستہ دکھاتے ہوئے
گزر رہے ہیں شکستوں کے بھیس میں ہم بھی
نئے سفر کے لئے منزلیں بناتے ہوئے
الجھ رہا ہے وہ مجھ سے حقیقتوں کی طرح
میں جھوٹ بول رہا ہوں اسے مناتے ہوئے
یہ رقص کرتی ہوئی روشنی کے سائے ہیں
کہ ہاتھ کانپ رہے ہیں دیا جلاتے ہوئے
غزل
مجھی میں ڈوب گیا دشمنی نبھاتے ہوئے
مظفر ممتاز