EN हिंदी
مجھے وہ کنج تنہائی سے آخر کب نکالے گا | شیح شیری
mujhe wo kunj-e-tanhai se aaKHir kab nikalega

غزل

مجھے وہ کنج تنہائی سے آخر کب نکالے گا

اعتبار ساجد

;

مجھے وہ کنج تنہائی سے آخر کب نکالے گا
اکیلے پن کا یہ احساس مجھ کو مار ڈالے گا

کسی کو کیا پڑی ہے میری خاطر خود کو زحمت دے
پریشاں ہیں سبھی کیسے کوئی مجھ کو سنبھالے گا

ابھی تاریخ نامی ایک جادوگر کو آنا ہے
جو زندہ شہر اور اجسام کو پتھر میں ڈھالے گا

بس اگلے موڑ پر منزل تری آنے ہی والی ہے
مرے اے ہم سفر تو کتنا میرا دکھ بٹا لے گا

شریک رنج کیا کرنا اسے تکلیف کیا دینی
کہ جتنی دیر بیٹھے گا وہی باتیں نکالے گا

رہا کر دے قفس کی قید سے گھایل پرندے کو
کسی کے درد کو اس دل میں کتنے سال پالے گا