مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے
غم دنیا سے فرصت ہو گئی ہے
ہمارا کام ہے موتی لٹانا
ہمیں رونے کی عادت ہو گئی ہے
جہاں میں قدر و قیمت میرے غم کی
ترے غم کی بدولت ہو گئی ہے
دل شاعر کے نغمات حسیں سے
ترے جلووں کی شہرت ہو گئی ہے
کہاں ہیں مصر کے بازار والے
دلوں کی نصف قیمت ہو گئی ہے
نکلتے ہیں مرے احباب بچ کر
محبت بھی سیاست ہو گئی ہے
جلیلؔ اب دل نہیں ملتا کسی سے
عجیب اپنی طبیعت ہو گئی ہے

غزل
مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے
جلیل الہ آبادی