مجھے تیری جدائی کا یہ صدمہ مار ڈالے گا
زمانے بھر میں رسوائی کا چرچا مار ڈالے گا
تمہارے نام سے جاناں مرا یہ دل دھڑکتا ہے
اب آؤ ہاتھ رکھ دو ورنہ دھڑکا مار ڈالے گا
کوئی غمگین مل جائے تو ہنسنا بھول جاتا ہوں
کسی دن خیر خواہی کا یہ جذبہ مار ڈالے گا
چراغوں میں لہو ڈالو ہے لڑنی جنگ ظلمت سے
وگرنہ اب اجالوں کو اندھیرا مار ڈالے گا
زمیں کے سرخ منظر رات کو سونے نہیں دیتے
کسی دن مجھ کو یہ احساس میرا مار ڈالے گا
زمیں پر ایڑیاں رگڑو کہ اب چشمہ کوئی پھوٹے
بہت ظالم ہے دریا ہم کو پیاسا مار ڈالے گا
سمندر پار کرنا عشق کا آساں نہیں شمسیؔ
بھنور سے بچ بھی جائیں تو کنارا مار ڈالے گا

غزل
مجھے تیری جدائی کا یہ صدمہ مار ڈالے گا
ہدایت اللہ خان شمسی