مجھے سہل ہو گئیں منزلیں وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے
ترا ہاتھ ہاتھ میں آ گیا کہ چراغ راہ میں جل گئے
وہ لجائے میرے سوال پر کہ اٹھا سکے نہ جھکا کے سر
اڑی زلف چہرے پہ اس طرح کہ شبوں کے راز مچل گئے
وہی بات جو وہ نہ کہہ سکے مرے شعر و نغمہ میں آ گئی
وہی لب نہ میں جنہیں چھو سکا قدح شراب میں ڈھل گئے
وہی آستاں ہے وہی جبیں وہی اشک ہے وہی آستیں
دل زار تو بھی بدل کہیں کہ جہاں کے طور بدل گئے
تجھے چشم مست پتہ بھی ہے کہ شباب گرمیٔ بزم ہے
تجھے چشم مست خبر بھی ہے کہ سب آبگینے پگھل گئے
مرے کام آ گئیں آخرش یہی کاوشیں یہی گردشیں
بڑھیں اس قدر مری منزلیں کہ قدم کے خار نکل گئے
غزل
مجھے سہل ہو گئیں منزلیں وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے
مجروح سلطانپوری