EN हिंदी
مجھے پوچھا ہے آ کر تم نے اس اخلاق کامل سے | شیح شیری
mujhe puchha hai aa kar tumne us aKHlaq-e-kaamil se

غزل

مجھے پوچھا ہے آ کر تم نے اس اخلاق کامل سے

احسان دانش

;

مجھے پوچھا ہے آ کر تم نے اس اخلاق کامل سے
کہ میں شرمندہ ہو کر رہ گیا اندازۂ دل سے

نظر کے رخ کو یا تو دل کی جانب پھیر لینے دو
نہیں تو سامنے آ جاؤ اٹھ کر پردۂ دل سے

امیدیں اٹھ رہی ہیں سیکڑوں امیدواروں کی
میں تنہا ہوں مگر تنہا نہیں اٹھوں گا محفل سے

امیر کارواں جس روشنی کے بل پہ بڑھتا ہے
نکلتا ہے وہ تارا صبح ہوتے خاک منزل سے

انہیں دنیا اب اشک غم کہے یا خون کی بوندیں
محبت نے چراغ آنکھوں میں لا کر رکھ دئے دل سے

اب اس ننگ محبت سے کنارہ بھی تو مشکل ہے
مجھے جس کی محبت کا یقیں آیا تھا مشکل سے

ابھی تو شام ہے آغاز ہے پروانہ سوزی کا
کوئی اس شمع کو آگاہ کر دو صبح‌‌ محفل سے

ابھی تحقیق بہتر ہے کہ پھر شکوہ عبث ہوگا
کہ میر کارواں واقف نہیں آداب منزل سے

مٹانے سے کبھی نقش محبت مٹ نہیں سکتا
مرا افسانہ نکلے گا تری روداد محفل سے

غنیمت ہے نظر روشن ہے دل اب تک دھڑکتا ہے
محبت میں تو یہ آسانیاں ملتی ہیں مشکل سے

افق کے آئنے میں ہو نہ ہو دھارے کے سائے میں
نظر آتی ہیں طوفانوں کی سرحد جیسے ساحل سے

ترا جلوہ تو کیا تو خود بھی تفریح نظر ہوتا
مری آنکھوں نے اب تک بھیک مانگی ہی نہیں دل سے

ستم کی آخری منزل پہ اظہار پشیمانی
نکل آتے ہیں آنسو یوں تو ہر دکھتے ہوئے دل سے

میں اک ذرہ ہوں لیکن وسعت صحرا سے واقف ہوں
اٹھا سکتا نہیں خود میر محفل مجھ کو محفل سے

تہیہ کر لیا تنگ آ کے گو ترک تعلق کا
مگر اب فکر ہے یہ خط انہیں لکھیں گے کس دل سے

مجھے احسانؔ میرے قافلے والوں نے اب سمجھا
کہ یہ ذرہ ستارا بن گیا تقدیر منزل سے