مجھے مجھ سے ملاتی جا رہی ہے
فقیری راس آتی جا رہی ہے
یہ مٹی میرے خال و خد چرا کر
ترا چہرہ بناتی جا رہی ہے
یہ کس کی یاد ہے جو میرے دل میں
مصلے سے بچھاتی جا رہی ہے
عجب شے ہے سخن کی سر بلندی
مرے سر کو جھکاتی جا رہی ہے
جو مستی رقص میں رکھتی تھی مجھ کو
وہ سجدوں میں رلاتی جا رہی ہے
لہو بہنے لگا ہے ایڑیوں تک
عبادت رنگ لاتی جا رہی ہے
غزل
مجھے مجھ سے ملاتی جا رہی ہے
عارف امام