مجھے منظور کاغذ پر نہیں پتھر پہ لکھ دینا
ہٹا کر مجھ کو تم منظر سے پس منظر پہ لکھ دینا
خبر مجھ کو نہیں میں جسم ہوں یا کوئی سایا ہوں
ذرا اس کی وضاحت دھوپ کی چادر پہ لکھ دینا
اسی کی دید سے محروم جس کو دیکھنا چاہوں
مری آنکھوں کو اس کے خواب گوں پیکر پہ لکھ دینا
اسی مٹی کا غمزہ ہیں معارف سب حقائق سب
جو تم چاہو تو اس جملے کو لوح زر پہ لکھ دینا
بہت نازک ہیں میرے سرو قامت تیغ زن لوگو
ہزیمت خوردگی میری صف لشکر پہ لکھ دینا
کبھی میں بھی اڑانیں بھرنے والا تھا بہت اونچی
مری پہچان اسی ٹوٹے ہوئے شہپر پہ لکھ دینا
سرابوں کے سفر سے تو نہیں لوٹا فضاؔ اب تک
جو خط لکھنا تو اتنی بات اس کے گھر پہ لکھ دینا

غزل
مجھے منظور کاغذ پر نہیں پتھر پہ لکھ دینا
فضا ابن فیضی