مجھے ملال بھی اس کی طرف سے ہوتا ہے
مگر یہ حال بھی اس کی طرف سے ہوتا ہے
میں ٹوٹتا بھی ہوں اور خود ہی جڑ بھی جاتا ہوں
کہ یہ کمال بھی اس کی طرف سے ہوتا ہے
پکارتا بھی وہی ہے مجھے سفر کے لیے
سفر محال بھی اس کی طرف سے ہوتا ہے
جواب دیتا ہے میرے ہر اک سوال کا وہ
مگر سوال بھی اس کی طرف سے ہوتا ہے
وہ میرے حال سے مجھ کو ہی بے خبر کر دے
یہ احتمال بھی اس کی طرف سے ہوتا ہے
میں اس کے ہجر میں کیوں ٹوٹ کر نہیں رویا
یہ اک سوال بھی اس کی طرف سے ہوتا ہے
جب آگہی مجھے گمراہ کرتی ہے محسنؔ
جنوں بحال بھی اس کی طرف سے ہوتا ہے
غزل
مجھے ملال بھی اس کی طرف سے ہوتا ہے
محسن اسرار