مجھے محرومیوں کا غم نہیں ہے
یہ توفیق طلب بھی کم نہیں ہے
محبت نام ہے غم پیشگی کا
ہوس اس راز کی محرم نہیں ہے
خموشی بھی ہے اک طرز تکلم
نظر کی گفتگو مبہم نہیں ہے
میں روتا ہوں جنوں کی بیکسی پر
وداع ہوش کا ماتم نہیں ہے
بجز اک عالم حسن تحیر
نظر میں اب کوئی عالم نہیں ہے
غزل
مجھے محرومیوں کا غم نہیں ہے
عارف عباس