مجھے کسی سے کسی بات کا گلا ہی نہیں
کہ اپنے دل کے سوا کوئی مدعا ہی نہیں
ترا کرم مرے دن کلفتوں کے یوں گزرے
مجھے لگا کہ مرے ساتھ کچھ ہوا ہی نہیں
لہولہان ہو دل یا قلم ہو سر جانا
تری گلی کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں
کہ جس میں پھول کھلیں اور چمن مہک اٹھے
یہ وہ سحر ہی نہیں ہے یہ وہ ہوا ہی نہیں
ہے خوش مزاج مگر دل کی بات کیسے کریں
کہ ایک پل کو سہی وہ کبھی کھلا ہی نہیں
عجب ہیں عشق کی نازک مزاجیاں یعنی
بجھا چراغ محبت تو پھر جلا ہی نہیں
یہ کیا جگہ ہے کوئی سن نہیں رہا آواز
پکارتا ہوں مگر کوئی بولتا ہی نہیں

غزل
مجھے کسی سے کسی بات کا گلا ہی نہیں
حسن عابد