مجھے کل ملا جو سر چمن وہ تمام نخل شباب سا
کوئی بات اس کی شراب سی کوئی حرف اس کا گلاب سا
جسے زندگی نہ بھلا سکے جسے موت بھی نہ مٹا سکے
وہی میں ہوں غالبؔ خستہ جاں وہی میرؔ خانہ خراب سا
وہ تمام گرد فنا ہوئی مرے جسم و جاں پہ جو بار تھی
تری اک نظر میں سمٹ گیا مرے سر پہ تھا جو عذاب سا
وہی ایک منظر خوش ادا کہیں نقش میں کہیں رنگ میں
وہی اس کی زلف غزل نما وہی اس کا چہرہ کتاب سا
کوئی بات اس میں ضرور تھی جو مرے خیال میں رہ گئی
اسے کیوں فریب نظر کہوں جسے میں نے دیکھا تھا خواب سا
دل ناصبور کے واسطے کوئی نقش ناز بچا نہیں
یہ جہان تازہ یہ عصر نو جسے دیکھیے تہہ آب سا
عجب اتفاق تھا نامیؔ یہ کہ ہوئے بہم بھی تو کیا ہوئے
نہ شکستہ کوئی مری طرح نہ گرفتہ کوئی جناب سا

غزل
مجھے کل ملا جو سر چمن وہ تمام نخل شباب سا
نامی انصاری