EN हिंदी
مجھے اس جھمک سے آیا نظر اک نگار رعنا | شیح شیری
mujhe is jhamak se aaya nazar ek nigar-e-rana

غزل

مجھے اس جھمک سے آیا نظر اک نگار رعنا

نظیر اکبرآبادی

;

مجھے اس جھمک سے آیا نظر اک نگار رعنا
کہ خور اس کے حسن رخ کو لگا تکنے ذرہ آسا

خد و خال خوبی آگیں لب لعل پاں سے رنگیں
نظر آفت دل و دیں مژہ صد مضرت افزا

پڑی رخ پہ زلف پر خم مسی رشک رنگ نیلم
غرض اس طرح کا عالم کہ پری کہے اہا ہا

کہا ہم نے اے سمن بر پری چہرہ مہر پیکر
جو چلی ہو یوں جھمک کر کہو عزم ہے کدھر کا

ہے یہ وقت سیر بستاں پھلیں ہم بھی ساتھ اے جاں
کہا سن کے یہ ارے میاں کوئی تم بھی ہو تماشا

ہے یہ آشنائی اگلی نہ شناخت اک دو دن کی
جو ہے دل دہی کی مرضی تو ہے لوچ پھر یہ کیسا

کہا جب نظیرؔ ہم نے ''یہی دل ہیں ہم تو رکھتے''
تو کہا جو نیکی ہووے تو پھر اس کا پوچھنا کیا