مجھے احساس یہ پل پل رہا ہے
کہ میرے سر سے سورج ڈھل رہا ہے
خوشا ساتھی وہ پچھلے موسموں کے
یہ تنہائی کا عالم کھل رہا ہے
برائے شب جلاؤ مشعل جاں
تھکا ماندہ یہ سورج ڈھل رہا ہے
سفر میں یہ گماں ہے ہر قدم پر
کہ میرے ساتھ کوئی چل رہا ہے
رقم تھے جس پہ لمحے بیش قیمت
وہ کاغذ آنسوؤں سے گل رہا ہے
تصور ہے نشہ ہے دھڑکنیں ہیں
سخنؔ شعروں میں کوئی ڈھل رہا ہے
غزل
مجھے احساس یہ پل پل رہا ہے
عبد الوہاب سخن