EN हिंदी
مجھے دریا کی موجوں سے بچا لے جائے گا کوئی | شیح شیری
mujhe dariya ki maujon se bacha le jaega koi

غزل

مجھے دریا کی موجوں سے بچا لے جائے گا کوئی

خالد رحیم

;

مجھے دریا کی موجوں سے بچا لے جائے گا کوئی
میں ایسی بوند ہوں جس کو چرا لے جائے گا کوئی

بجھا کر طاق میں رکھ دے گا یہ دست سحر مجھ کو
مگر جب شام آئے گی جلا لے جائے گا کوئی

یہی کچھ سوچ کر اپنی حویلی چھوڑ آیا تھا
اگر میں روٹھ جاؤں گا منا لے جائے گا کوئی

رئیسوں کی یہ بستی ہے کھڑے ہیں راہ میں سائل
کہے گا ہاتھ میں سکہ دعا لے جائے گا کوئی

مجھے اچھا نہیں لگتا کسی سے مانگ کر پڑھنا
کتابیں میں خریدوں گا اٹھا لے جائے گا کوئی

چرا لائی ہے پھولوں سے مجھے باد صبا خالدؔ
میں خوشبو ہوں مجھے اپنا بنا لے جائے گا کوئی