EN हिंदी
مجھے دیر سے تعلق نہ حرم سے آشنائی | شیح شیری
mujhe dair se talluq na haram se aashnai

غزل

مجھے دیر سے تعلق نہ حرم سے آشنائی

شمیم کرہانی

;

مجھے دیر سے تعلق نہ حرم سے آشنائی
کہیں قشقۂ نمائش کہیں سجدۂ ریائی

کسی جیب دل میں دیکھی نہ متاع عشق میں نے
مرے شہر میں لٹا دو مرا درد بے نوائی

مرے دل کے آئینے کو نہ شکستہ کر خدارا
کہ اداس ہو نہ جائے ترا حسن خودنمائی

کوئی کب پہنچ سکا ہے ترے غم کی سرحدوں تک
وہی کارواں کی منزل جو مری شکستہ پائی

مرے حرف صد تمنا سے کھلا تو کوئی غنچہ
میں نثار یک تبسم کہ ہوئی تو لب کشائی

مری غربت سحر کا نہ تھکا غرور ورنہ
میں چمن سے مانگ لیتا کوئی شام بے حیائی

نہ شمیمؔ ناز کرنا کہ عطیۂ جنوں ہے
یہ ترا ترنم غم یہ تری غزل سرائی