EN हिंदी
مجھے بھلا کے مجھے یاد بھی رکھا تو نے | شیح شیری
mujhe bhula ke mujhe yaad bhi rakha tu ne

غزل

مجھے بھلا کے مجھے یاد بھی رکھا تو نے

کشور ناہید

;

مجھے بھلا کے مجھے یاد بھی رکھا تو نے
یہ کیسا دعویٔ دشوار پھر کیا تو نے

ہوا نے اپنے لیے نام کچھ رکھے ہوں گے
تھکن سے پوچھ لیا گھر کا راستا تو نے

حذر کہ اب مرے ہاتھوں میں مدعا بھی نہیں
کیا ہے لیلئ خواہش کو بے ادا تو نے

یہ کون تیری طرح میری آنکھ میں چمکا
جلائی کیسی یہ قندیل بد دعا تو نے

نگاہ شب ترے آنگن میں خواب ڈھونڈھے تھی
یہ اب کے زخم بھی کیسا دیا نیا تو نے

تجھے مرے لیے نیندوں کے پھول لانے تھے
یہ کیسا آنکھوں کو بخشا ہے رتجگا تو نے

لباس بدلی ہوئی رونقوں کے اچھے تھے
مگر یہ دل کہ رکھا حوصلہ قبا تو نے

قدم اکھڑ سے گئے تھے بجائے ہم سفری
ہوا کو اوڑھ کے دیکھا تھا بارہا تو نے

رہی گریز کی تہ دامنی سے برگشتہ
مجھے دیا تھا وہ سودائے حوصلہ تو نے