مجھے بہ فیض تفکر ہوا ہے یہ ادراک
چمک اٹھوں گا کسی روز میں سر افلاک
کس اوج موج میں مجھ پر کھلا ہے یہ احوال
زمیں سے تا بہ فلک اڑ رہی ہے میری خاک
عجب نہیں کہ نیا آفتاب ابھرنے تک
خلا کے ہاتھ پہ گرداں رہے زمیں کا چاک
یقین بھی تھا اسے ہجر کا مگر پھر بھی
صبا کے پہلو سے لپٹی بہت چمن کی خاک
یہ خاک ہی مری زنجیر بن گئی ورنہ
مری نگاہ میں جچتی نہیں کوئی پوشاک
غزل
مجھے بہ فیض تفکر ہوا ہے یہ ادراک
عارف فرہاد