مجھے آگہی کا نشاں سمجھ کے مٹاؤ مت
یہ چراغ جلنے لگا ہے اس کو بجھاؤ مت
مجھے جاگنا ہے تمام عمر اسی طرح
مجھے صبح و شام کے سلسلے میں ملاؤ مت
مجھے علم ہے مرے خال و خد میں کمی ہے کیا
مجھے آئنے کا طلسم کوئی دکھاؤ مت
میں خلوص دل کی بلندیوں کے سفر پہ ہوں
مجھے داستان فریب کوئی سناؤ مت
مجھے دیکھ لینے دو صبح فردا کی روشنی
مری آنکھ سے ابھی ہاتھ اپنا ہٹاؤ مت
وہی پیڑ ہے وہی شاخ ہے وہی نام ہے
جو گرا ہے پھول یہاں سے اس کو اٹھاؤ مت
مجھے تہہ میں جا کے اچھالنے ہیں گہر کئی
میں ہوں مطمئن مجھے ڈوبنے سے بچاؤ مت
تمہیں بے مقام رفاقتوں کی تلاش ہے
مرا شہر شہر ثبات ہے یہاں آؤ مت
غزل
مجھے آگہی کا نشاں سمجھ کے مٹاؤ مت
یاسمین حمید